THE CHARTER OF LOCAL CUSTOMAR LAWS OF POONYAL VALLEY

 دستور پونیال نافذ العمل 1935 کالم۳

گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کی طرح تحصیل پونیال میں بھی 1980 اور 90 کی دہائی کی نسل اپنے سماجی سرگرمیوں کے پیش نظر مقامی دستور سے لا تعلق رہی ۔تعلیم ، صحت معاش اور دیگر سہولیات کے حصول کے لیے علاقے کے جوان افراد گاؤں سے نکل کر شہروں میں رہنے لگے اس طرح وہ اپنے مقامیت سے نہ بلند ہو کر وفاق پرستی کے حلقے میں داخل ہو گئے اور پھر نظام زندگی میں رواج کا عمل دخل ختم ہو گیا۔ 1980 کی دہائی سے پہلے پونیال کے اندر زر ، زمین اور زن کے تمام تنازعوں اور دیگر سماجی معاملات کے حل کے لیے دستوری جرگہ ہوتا تھا۔ جس میں چادر چار دیواری کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے خوش اسلوبی کے ساتھ فیصلے ہوتے تھے۔ مگر 1980 کے بعد یہاں کا ہر تنازعہ اور معاملہ انتظامی عدالت سے ہو کر قانونی عدالت کے مختلف منزلوں سے ہو کر گردشِ کرتاہے ۔مگر کوئی فریق حصول حق میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آ ج تک پونیال کے پشتنی باشندگان کے اپس کے وہ تنازعات ختم نہیں ہو سکے جو عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ہاں البتہ غیر پشتنی لوگوں کا پلہ باری ہوتا ہے۔ جو مقامی اور غیر مقامی کے زمینی تنازعات میں عدالتی کارروائی میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ غیر پشتنی لوگوں کا غلبہ نظر اتا ہے کیونکہ ریاست کا قانون اور عدالتیں انہی کو سپورٹ کرتی ہیں اور انصاف کی فراہمی میں پشتنی افراد کمزور نظر اتے ہیں تحصیل پونیال کا سب سے بڑا گاؤں شیر قلعہ کی عوامی کمیٹی کے نمائندے نے کہا کہ ہم دستوری حدود سے نکل گئے ہیں کیونکہ ہم اپنے گاؤں کی تمام اراضیات اور نالہ جات اپنے لوگوں میں تقسیم کر چکے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کی اپنے دستور اور رواج میں غیر پشتنیوں کو بھی شامل کیا۔گیا اس قدر بے بسی اور عجلت کا مظاہرہ تاحال بونیال میں مناسب نہیں۔ ماسوائے غیر پشنی کو مطمئن کر کے عدالت سے جان چھڑانے کے ۔ بہرحال پونیال کے دستور میں آج بھی وہ بنیاد موجود ہے جس کے اوپر تمام دیرینہ تنازعات کو نمٹانے اور درست فیصلے کرنے کا ڈھانچہ برقرار ہے۔ کیونکہ یہاں باقاعدہ اصولوں کے تحت حدود اور قیود مقرر ہیں ہر گاؤں کا اپنا دیہی نظام ہے اور اسی طرح علاقے میں گھریلو جھگڑے بھائیوں کے اپس کے معاملات،طور طریقے، رشتے، طلاق راستے اور دیگر بنیادی سماجی رسومات کا ایک دستوری ڈھانچہ موجود ہے جس کی بنیاد پر معاملے کا فوری علاج موجود ہے
یہاں تک کہ موروثی زمین کا حصہ" باگو" کسی کو منتقل کرنے کے لیے ہر طرح کا دستوری جواز موجود ہے۔ مثلا نرینہ اولاد کی غیر موجودگی میں بیٹی کا رشتہ اپنے کسی خونی رشتہ دار سے کرنے کا رواج اگر کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا ہے۔ تو کسی اور سے رشتہ ہوتا ہے جو پونیال کے کسی گاؤں کا باشندہ ہو۔ اگر پونیال کا پشتنی باشندہ نھیں تو اسکو گھر داماد بنانے کا دستوری معاہدہ طے ہوتا تھا۔ حق ملکیت کے اصول کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا مگر اب پورا نظام درہم برہم ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔ تحریر جاری ہے.

Comments

Popular posts from this blog

Traditional Dress of Gilgit Baltistan ....

pak Chaina Trade Association Resolution